بند گلیوں میں کسی کی وحشتیں ہیں جا بجا دور تک بکھری ہوئی کچھ مورتیں ہیں جا بجا آ رہی ہیں مجھ کو آوازیں کسی بے چین کی اس کے پیروں میں لپٹتی حسرتیں ہیں جا بجا دھڑکنوں کے ساتھ مزید پڑھیں

بند گلیوں میں کسی کی وحشتیں ہیں جا بجا دور تک بکھری ہوئی کچھ مورتیں ہیں جا بجا آ رہی ہیں مجھ کو آوازیں کسی بے چین کی اس کے پیروں میں لپٹتی حسرتیں ہیں جا بجا دھڑکنوں کے ساتھ مزید پڑھیں
ایک غزل۔ آنکھوں میں اک سراب ضروری سا ہو گیا یعنی کہ اک عذاب ضروری سا ہو گیا کاجل ترے فراق کا پھیلا ہے آنکھ میں لوگوں سے اجتناب ضروری سا ہو گیا شدت مرے جنون کی مقبول ہو گئی مزید پڑھیں
ایک غزل۔ مدھم سُروں کا دیپ سلگتا ہے رات میں خوشبو سا اک خیال مہکتا ہے رات میں حیرت کدے کے بیچ میں رہتا ہے رات میں شاید وہ میری آنکھ سے تکتا ہے رات میں سوچوں میں رکھ لیا مزید پڑھیں
ایک غزل— زندگانی عجیب الجھن ہے ایک طرفہ سلگتی دھڑکن ہے گو کہ رہتا ہے خود اندھیرے میں میرے شعروں میں کتنا روشن ہے چاندنی مانگتا ہے آنکھوں میں کتنا سادہ ہمارا درپن ہے پھیلتا جارہا ہے مصرعوں میں کس مزید پڑھیں
تمہارے خواب کو لے کر بھلا کدھر جائیں نظر سے باندھ لو تو آنکھ میں ٹھہر جائیں یہ کیا ستم کہ اسی گھر کو لوٹ کر جائیں ذرا سی دھوپ سے رشتے جہاں بکھر جائیں جو تو نہیں تو نہیں مزید پڑھیں
جنوں میں عکس سے آئینہ ہم کلام ہوا خرد کی آنکھ میں دونوں نے کچھ کہا نہ سنا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ہُو کی سلطنت کے سوا اسی کے سوز سے جلتا ہے آرزو کا دیا حواسِ خمسہ کا مزید پڑھیں
ایک نظم: مدار مدار میں ہیں سبھی آپ اپنی ہستی کے کہاں نظر میں کوئی بارِ دگر آتا ہے کسی کو دیکھنا اور آنکھ میں نمی آنا کبھی نگاہ میں ایسا مقام آتا ہے رکیں قدم تو کبھی منزلیں سنورتی مزید پڑھیں
آنے والی کتاب سے ایک غزل۔ محرمِ ذات ہے محفل میں تماشائی ہے کیسے بے درد سے نیلمؔ کی شناسائی ہے رازِ دل کھول دیا آج چمن پر میں نے ہائے کیا جان گنوانے کی قسم کھائی ہے دشت سے مزید پڑھیں
نئی کتاب سے ایک غزل: تغیر کے جہاں میں اک فسانہ مستقل تم ہو ہماری آنکھ میں واحد زمانہ مستقل تم ہو نوائے شوق نے کیا کیا سنایا سازِ دوراں پر لبِ ہستی پہ لرزاں سا ترانہ مستقل تم ہو مزید پڑھیں
Recent Comments